تحفہ


قارئین کرام!
تحفہ،(ہدیہ، Gift)ایک ایسا پُرکشش لفظ ھے جو  بیک وقت بچوں بڑوں عورت مرد سب پر ایک خوشگوار تاثر کا احساس پیدا کرتا ھے۔زندگی اور اس کی نعمتیں تحفہ خدا ہیں اس میں اللہ کا سب سے اسپیشل گفٹ مجھے باغ میں کھلے سُرخ بھینی بھینی خوشبو سے لبریز، بڑے بڑے تازہ  گلاب لگتے ہیں جوں ہی ان پر نظر پڑے تو لگتا ھے اللہ کا بہت ہی اسپیشل گفٹ آگیا ھے ھم انسانوں کے لئے،  بےشک یہ آیت ایسے تمام مواقع کے لئے ہی ھے
“اور تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے”
اب چاھے وہ میری دنیا تک محدود مٹی کے تیل کی خوشبو ہو یاعود کی خوشبو ھو، بارش کی بوندیں مٹی کو مہکایں، یا کوئی دلفریب  کوئی سوندھا ساعطر ہو،  برینڈڈ پرفیوم ھو،کوئلہ چائے بناتے وقت سُلگتے کوئلے کی خوشبو ھو یا پھر پکتے چاولوں کی خوشبو ھو،  کتنی قسم کی خوشبویات کااہتمام ھم ادنیٰ سے انسانوں کے ليے اللہ میاں نے کیا ھے۔ سوچا جائے تو ان رنگ برنگے ہلکے، گہرے رنگوں کے دیسی خوشبودار گلابوں، خوشبویات اور سونگھنے اور جی بھر کے دیکھنے  کی حِس سے بڑا اور کیا تحفہ ھو گا ھم انسانوں کے لئے؟ ایک اندازے کے مطابق  گلابوں کی 150 اقسام پائی جاتی ہیں ۔
سبحان اللہ
تحفے تحائف میں امیروں غریبوں، عام عوام سب کا الگ معیار ہوتا ھےـمگر تحفے کی سب سے بھیانک قسم وہ رشوت دینا لینا ھوتی ھے جو “تحفوں”کے نام پر دی یا لی جاتی ھے اسے آپ حرام کو حلال بنانا بھی کہہ سکتے ہیں اور ایسے تحفے تقریباًھر محکمے میں چل رہے ہوتے ہیں بخوشی قبول بھی کئے جاتے ہیں اورکہیں زبردستی وصول بھی کئے جاتے ہیں۔ تحفہ چاھے جیسا بھی ہو بس اسے وصول کرنے کے ساتھ ھی اِک ہلچل انسان محسوس کرتا ھے جیسا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے فیصل صالح حیات کا ایک مرتبہ الیکشن کے دنوں کا مشہور واقعہ ھے کہ ایک جگہ عوام کے ساتھ کہیں تشریف فرما تھے کہ ان کی خدمت میں ایک تحفے کا ڈبہ لایا گیا انہوں نے “عوام مجھ سے بہت محبت کرتی ھے” جیسے تاریخی الفاظ ادا کرتے ھوئے ڈبہ کھولا تو اندر سے ایک تسبیح اور  ایک عدد نیا لوٹا نکلا۔ نہیں معلوم فیصل صالح حیات کے چہرے کے تاثرات اس کے فوراً بعد کیا رھے ہوں گےمگر یہ  ثابت ھو گیا کہ واقعی عوام ان سے بہت پیار کرتی ھے بعد میں اطلاعات تھیں کہ ان کے مخالفین کی جانب سے ایسا کیا گیا تھا۔
بچپن میں ھم نے جب کبھی لاٹری کھولی تو زیادہ تر  try again  لکھا ہوتا تھا مگر اس دوران کبھی کبھی butter scotch ٹافی یا ایک کپ\گلاس اکثر انعام میں نکل آتے ان کی خوشی آج تک محسوس ہوتی ھے۔early classes studies میں ایک  دفعہ اسکول کی جانب سے 23 مارچ کے سلسلےمیں گورنر ہاؤس جانا ھوا تھا-  راستے میں ھم پیر پگارا کے خوبصورت تعمیر کردہ کنگری ہاؤس کودیکھتے گذرے ان دنوں “اے بھائی”کہنے والے مشہور فخرالدین جی ابراہیم کراچی کے گورنر تھے اور اس تقریب میں پہلی بار یہ خاص بات نوٹ کی کہ بچوں کی نشستوں کو فرنٹ پر رکھا گیا اور تمام بڑے مہمانانِ گرامی آخر میں تشریف فرما ہوئے اور ان میں سب سے آخر میں خود فخرالدین جی ابراہیم بیٹھے تھے خطاب کے لئے جب وہ تشریف لائے تو ہم بچوں کے گروپ کے پاس سے گذرتے سلام دعا ہوئی، بہت عجزو انکساری دیکھی تھی ان میں، اب سوچتی ہوں کہ بچپن میں اندازہ ہی نہ ھوا کہ ھم گورنرصاحب سے مل رہے ہیں نہ ہی “ہٹو بچو” کی صدائیں تھیں بڑا دلچسپ اور بچوں سے پیار بھرا خطاب تھا ان کا اللہ انہیں جوار رحمت میں جگہ دیں آمین۔ گورنر ہاؤس میں انٹری بھی بڑی دلچسپ تھی سب بچے لائن بنا کے ایک ایک کر کر اندر جا رہے تھے اور پگڑی پہنے دونوں اطراف موجود خادمین بچوں کو دائیں بائیں ایک ساتھ جوس کے پیکٹ تھما رہے تھے میں نے جوس کا ایک پیکٹ لے کر دوسرا واپس کیا تو پگڑی والے انکل کہنے لگے کہ یہ آپکو لینے ہوں گے دونوں ہی آپکے لئے ھیں نہیں تو بیٹا آپ گھر لے جاؤ۔واپس نہیں کرتے۔ آگے ہی گورنر ھاؤس کا گیسٹ روم تھا جس میں قائد اعظم کی بڑی سی تصویر آویزاں تھی پھر اس سے دائیں طرف کچھ سیڑھیاں اترتے بے حد وسیع لان تھا جہاں اک “جہاں” سما جائے وہاں سب کے بیٹھنے کا  اہتمام کیا گیا تھا۔پروفیسر حسنین کاظمی،نعت خواں سہروردی،بہروز سبزواری محمد علی شہکی اور مقامی اسٹار بینڈ یہ ھمارے قریب ھی موجود تھے یہ سب ہی بہت شفقت سے ھم بچوں کے ساتھ پیش آئے تھے باقی بھی  کافی مشہور شخصیات تھیں جو ھم سے کافی فاصلے پر تھیں محمد علی شہکی بار بار ہم بچوں کو دلفریب مسکراہٹ سے نواز رہے تھے اور بہت سارے قومی ترانے میوزک کے ساتھ انہوں نے پیش کئے تھے ھم بچے بھی ان کے ھم آواز بنے تھے۔اس کے بعدتمام افراد کے لئے عصرانے یعنی (tea time) کا بندوبست کیا گیا تھا۔ اس میں دو  رنگوں سے بنی سبزاور سفید ایسی برفی تھی جو میں نے کراچی میں کہیں اور پھر دوبارہ نہ دیکھی نہ کھائی، گویا یوں سمجھ لیں کہ خوان کے نام تو اگرچہ عام سے ہی ہیں مگر لذت اور معیار ایسا جیسے واقعی ہم اچانک کسی بادشاہ کے دربار میں موجود ھوں اور سامنے شاھی دسترخوان سجا ھو۔ پاکستان میں بادشاہت ہو یا نہ ہو، جمہوریت ہو یا نان جمہوریت بڑے لوگوں کے بڑے دسترخوان ہی رہتے ہیں گویا جدید شاہی انتظام پر مبنی دسترخوان ھو جیسے، اور اس کا ذائقہ ھم عوام بلکہ ھم بچوں نے بھی گورنر صاحب کی بدولت چکھ ہی لیا  ۔  بہترین کراکری اور بہت اعلی نظام تھا دو تین اقسام کے بہت اعلی قسم کے سموسے، پکوڑے، کباب،سینڈوچ،شربت اور لذیذ چائے شامل تھی واپسی پر بچوں کو تحفے کے پیکٹ تھمائے جا رہے تھے اور رش کی وجہ سے گورنر ہاؤس سے باہر نکلنے میں تقریباً عشاء کا وقت ہو چلا تھا کیونکہ گورنر ہاؤس سے پہلے انکو باہر لایا جا رہا تھا جو اندرون سندھ سے شرکت کے لئے آئے تھے تو واپسی کا خیال کرتے ھوئے انکو ترجیح دی گئ تھی سو ھم ابھی واپسی کے انتظار میں تھے ھماری اسکول بس کا انتظام تھا اور سب بچے گھر پہنچنےکے بعد آخر میں ٹیچرز کو جانے کی اجازت تھی۔جب تک ھم گورنر ہاؤس سے باہر نکلتے ایک منظر نے ہمیں اپنی جانب متوجہ کیا کچھ بچوں کے سر پر انعامات کو چادروں میں باندھ کر  اٹھوایا گیا تھااوران سے سندھی میں انکی ٹیچرز باتیں کر رہی تھیں میں اور دیگر اسٹوڈنٹس ان بچوں کے پاس پہنچے اور پوچھاآپ نے سر پر یہ کیوں ایسے رکھا تو ان اسٹوڈنٹنس نے آئستہ آواز میں بڑی عجیب بات کہی یہ گفٹ ھم کو ملے ہیں مگر ٹیچرز نے کھولنے سے منع کر دیا ھے اور کہا  کہ یہ سب ان کا ھے جو کھولے گااسے مار پڑے گی  اور یہ سب ٹیچرز آپس میں بانٹنے کی بات کر رہےہیں اب ھم حیدرآباد جارہے ہیں وہاں کے اسکول سے ہیں ھم،  گویا بچوں کے تحفوں پر ڈاکہ ھم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا،اس کے کافی دیر بعد جب ھماری واپسی پر سبکو تحفے کا پیکٹ ملا ھماری ٹیچرز نےتو کہا سب بچے گھر لے جائیں مجھے جو پیکٹ ملا وہ بہت پھولا ھوا اور قدرے بڑا تھا دیگر دوستوں کے پیکٹ سے تو سبکو تجسس سا تھا سب نے فیصلہ کیا کہ تھوڑا تھوڑا  اپنا اپنا پیکِٹ کھول کے دیکھو تو کیا ھےجب پیکِٹ کارنر سے کھولا تو میرے پیکِٹ کے اندر2 الگ الگ آف وائٹ کپڑے نظرآئے۔مطلب یہ ڈبل جینٹس سوٹ کا گفٹ تھا اب سب کو سمجھ آئی کہ میرا پیکِٹ بڑا بڑا کیوں تھا جبکہ باقی دوستوں کے پیکِٹس میں لیڈیز یا جینٹس سنگل سوٹ تھا بس جی قسمت اپنی اپنی یہ تمام پیکٹ گُل احمد کے تھے،پھر میری دوست کہنے لگی مجھ سے پیکِٹ بدل لو  اس میں ریڈ سنگل لیڈیز سوٹ تھا،میں نے بدل لیا اور سب بچے خوشی خوشی گھر واپس آگئے۔

Leave a comment