Posts by Sadia

This is a four-wheeled wonderful "sofa text express train". The sofa express train will take you to such a city of words where you will see dynamic life from interesting aspects. I hope that you will like and enjoy the sofa journey.   I have had a very old friendship with words since the day I wrote the first word without any help. The words are with me. Whenever anything or an event impresses me,... so I put the pen in gear and start the sofa journey and reach the city of words.  

آشوب چشم


قارئینِ کرام!
وطنِ عزیز کے کئی شہروں میں آجکل “آشوبِ چشم” کی وبا پھیلی ھوئی ھےگویا چاروں طرف سب کی آنکھوں میں خون سا اتر آیا ھے ہر چیز پر شفق چھاگئی ھے کیا بڑے، کیا چھوٹے جوان، بزرگ سب ہی “متاثرینِ چشمِ لالی، اہلیان سبز پرچم ہلالی,سوجی آنکھ  متوالی۔۔۔
   ایسے میں بڑے خوش قسمت ہیں جو اس وبا سےاب تک بچے ہوئے ہیں۔ چونکہ یہ وبا بہت تیزی سے ایک سے دوسرے شخص کو متاثر کرسکتی ھے تواس کے لئے بہت سی احتیاطی تدابیر اپنائی جاتی ہیں جن میں خاص طور پر کوشش کی جاتی ھے کہ آنکھ کا آنکھ سے رابطہ نہ ھو بس اِدہر    ربطِ چشم ھوا نہیں کہ مریض کے ساتھ ساتھ دوسرے انسان کی آنکھیں “اظہار یکجہتی” کے طور پر فوراً سرخ ہو گئیں اب یہ بھی مشکل سی کیفیت ھے کہ نگاہ کا رابطہ منقطع کرکے معاملات زندگی دیکھے جائیں،  کالے سیاہ چشمے شاید ایسے ہی مواقع کے لئے بنے ہیں یہ کالا چشمہ آنکھوں کی سُرخی بھی ڈھانپ لیتا ھے اور بصری رابطے میں آسانی ھو جاتی ھے، دن میں بھی رات کا سا گمان گذرتا ھے اور دن میں ہی تارے، چاند، چاندنی سب نظر آ جاتا ھے۔
فیشن کا فیشن اور بیماری میں استفادہ بھی ہر متاثرہ مریض کالا سیاہ چشمہ لگائے کہتا پِھرتا ھے
؎ اِن بھینگی سی سُرخ آنکھوں نے مجھے کہیں کا نہ چھوڑا
کالے چشمے کے سِوا دنیا میں اب  رکھا کیا ھے”
کچھ افراد میں ایک آنکھ کی قوت مدافعت اس بیماری سے اسے متاثر نہیں ھونے دیتی مگر دوسری آنکھ شدید متاثر ہوتی ھے ایسے ہی  کئی افراد کو دو رنگی چشمہ(ایک آنکھ کی سائڈ والی عینک کالی سیاہ اور ایک آنکھ کی سائڈ والی عینک ٹرانسپیرینٹ ٹائپ) لگائے دیکھ کر حیرانی ھوئی پتہ چلا کہ دو رنگ کے موزے، چپل اورجوتے کے بعد اب دو رنگی عینکیں فیشن میں ہیں تاکہ چشمے کی ٹرانسپیرنٹ والی سائڈ سے دن رات کی حقیقت سے آگاہی رہے اور دن میں خالی تارے ہی نہ گِنیں بلکہ حقیقت  نظر آئے ویسے ہی ہر طرف(AI) مصنوعی ذہانت کے اثرات تو اب تقریباً زندگی کے ہر شعبے میں ہی نظر آتے ہیں، chat Gpt کی الگ کَھپ مچی  ھے  اور اب ایسی دو رنگی عینکیں بھی۔۔۔ کچھvirtual reality  کی سی لگیں یہ بات اور ھے کہ اب  انسانوں  کو ورچوئل ریئلیٹی  زیادہ اچھی لگتی ھو  یا کم مگر سچ ھے کہ یہ راہ حقیقت سے فرار کا شاید اک  اچھا بہانہ ھے خیر بات کہاں سے کہاں نکل گئی تو ھم بات کر رہے تھے آشوب چشم سے اک آنکھ متاثر تو دوسری کے بچ جانے کی، مگر آئینے میں جب جب نگاہ پڑے تو متاثرہ آنکھ ٹھیک والی آنکھ کو چیلینج دیتے کہتے  نظر آئی”مجھ سے بچ کےدکھاؤ” اور  ٹھیک والی آنکھ خوفزدہ ھو کے خود بخود ہی بند ھو جاتی ھے مگر کب تک، آخر ٹھیک آنکھ نے توچیلینج ہارنا ہی تھا کہ یہ وبا ھے ھی ایسی کہ کسی شاعر کا  شعر چِلاّ چِلاّ کے کہہ اُٹھے
؎ “جا ،جا
میں تجھے نہ ھی چھوڑوں”
ویسے اس شعر کے ساتھ ہی مجھے اس طرح کے مزاج سے ھم آھنگ شاعر جون ایلیا صاحب کا خیال گذرا ھے۔ شاعروں نے بھی آہو چشم  غزالی و ابدالی نگاھوں کی تعریف میں زمین آسمان ایک کر دیئے کیا کسی شاعر نے محبوب کی اسہالی کیفیت، بہتے کانوں دُکھتی آنکھوں یا پھر “محبوب کی ایک آنکھ پتھر کی” کی اس پر کوئی حسین شاعری سے صفحات کالے کئے کہیں؟  نہیں،
ھائے یہ دوغلے شاعر۔۔۔
کیا کیفیت کہ آشوب چشم کے سِتم سے  نگاہیں نہ اوپر  اٹھتی ہیں نہ نیچے کی طرف جھکا جاتا ھے ایسا لگتا ھے پہلی صدی کے شریف انسان زندہ ھو گئے سر بھاری بھاری، قدم کہیں پڑتا ھے آنکھوں کی جلن سے بے چین طبیعت ،نری قیامت،بھرپور شامت ھی تو ھے بھلا اب اور قیامت کیا ھو گی یہ چھوٹی چھوٹی قیامتیں ہی انسان کا چلنا پھرنا دوبھر کر دیتی ہیں۔البتہ میر تقی میر اس بارے کیا خوب کہہ گئے
؎” آشوب چشم چشمہ زا، اب کوہ و صحرا پر بھی ہےـ
طوفان سا شہروں میں ہے، اک شور دریا پر بھی ہے۔
گو چشم بندی شیخ کی ہو آخرت کے واسطے 
لیکن نظر اعمیٰ نمط پردے میں دنیا پر بھی ھے۔“
اللہ تعالیٰ ھم سب کو ہمیشہ اس وبا سے اور دیگر امراض سے محفوظ رکھیں، آمین ـ

امید کی گھنٹی


بھارت سے شکست سری لنکا سے ھار، گویا “مَرے ھوئے پہ سو دُرے پورے” ابھی عوام اس صدمے سے نہ نکلی کہ پِٹرول کی نئی قیمت 331 روپے فی لیٹر پہ جا پہنچی۔ مہنگا پٹرول، بجلی بند،  گیس بند ،پانی کی قلت اور آزاد پنچھی کی مانند اُڑتی ،بڑھتی  مہنگائی… ایک سے بڑھ کے ایک ایسے مسائل کہ جن کا حل سوچتے سوچتے غمگین عوام صابن کی طرح گُھلتی چلی جا رہی ھے کوئی فریاد سننے والا نظرنہیں آتا مایوسی کے بادل نہیں چھٹ رہے۔ ایسے میں ایک  راہ دکھائی دے گئی ھے۔
مُغل شہنشاہ جہانگیر نے عوامی فریاد کے لئے محل کے باہر زنجیر لگوائی تھی جسے  فریادی ہلا کر شہنشاہ کے روبرو اپنی فریاد بے دھڑک پیش کرسکتا تھا ۔ اب پِچھلے دِنوں مغل شہنشاہ جھانگیر کے  یاد میں گورنر سندھ جناب کامران ٹیسوری نے عوامی مشکلات کے پیش نظرگورنر ھاؤس کے باھر “امید کی گھنٹی” باندھی ھےجسے بجا کر فریادی اپنی فریاد پیش کر سکتے ہیں مگر اب جو حالات پاکستان میں چل رہے ایسے میں اگر   گورنر سندھ  اس میں “آن لائن امید گھنٹی ” کا اضافہ کر دیں تو میں  گورنر صاحب کی تہہ دل  سےمشکور ھوں گی۔ گورنر ہاؤس کے باھر پہنچنابھی ہر کسی کی دسترس میں نہیں رہا۔
   قارئین کرام! وقت آگیا ھے کہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی “اُمید کی گھنٹی” اب تمام عوام فریادی بن کے بجا ھی دیں۔ اب یہ الگ بات ھے کہ ھم میں بہت سے افراد بچپن میں لوگوں کی گھنٹیاں بجا کے کئی بار بھاگے بھی ھوں گے  کئی دفعہ پکڑے بھی گئے ھوں گےمگر گورنر سندہ کی گھنٹی بجا کے بھاگنے کی ضرورت نہیں آپکوکچھ نہیں کہا جائے گا۔ بلکہ یہ مجبور بے بس فریادی کی ایسی امید ھے بس گویا یوں سمجھ لیں  جیسے کرکٹ  کا میدان ھو آخری اوور کی صرف 2 گیندیں باقی ھوں کریز پر کھڑا باؤلر کا سامنا کرنے والا آخری کھلاڑی ھو  اور 4 رنز چاہیے ھوں اور ایسے میں ایک چوکا امیدوں پہ پورا اترے اور بس بازی پلٹ جائےایسے ہی اب مظلوم عوام کے لئے  گورنر سندھ کی جانب سے کیا جانے والا “امید کی گھنٹی” کا اقدام اندھیرے میں روشنی کی کرن ھے عوام تومشکلات کی چکی میں وہ پِسے ہیں کہ  اب سمجھ نہیں آرہا کون سے مسائل پہلے حل کریں اور کن  مسائل کو بعد کے لئے رکھ دیا جائے اگر ضلع بونیر کے ایک گاؤں برشمنال میں پانی کے بڑے یا برساتی نالے کے پانی کے بھاؤ کا رخ موڑ کر  پَن بجلی یا  ہائڈرو پاور پراجیکٹس کے ذریعے سے مقامی لوگ بجلی پیدا کر کے گاؤں کی ضرورت پوری کر سکتے ھیں اور بجلی کا بِل صِرف 100 روپے ادا کرتے ہیں توایسے کئی منصوبوں پر مُلکی سطح پر کام کیا جا سکتا ھے ویسےبھی سندھ کے پاس دریا،ندیاں، تالاب، جوہڑ ، گندے نالے اور سمندر غرض ہر ورائٹی موجود ھے۔ ھم اہلیان کراچی جناب کامران ٹیسوری سے آن لائن گھنٹی بجا کے فریاد کرنا چاہیں گے کہ سمندر کا پانی  میٹھا بنا کر کر گھر گھرفراھم کیا جائے تاکہ پانی کی قلت دور ھو اور پانی کی وافر مقدار سے بجلی بنانے کے منصوبے پر بھی کام ھونا چاہیے اگرچہ ھماری فریاد جناب کامران ٹیسوری کے اختیارات سے کہیں بڑی ھے اور امید کی گھنٹی کی توجہ ابھی چھوٹے مسائل کی جانب ھے  مگر امید پہ دنیا قائم ھے اللہ نے چاہا، اور ھم امید کرتے ہیں کہ بجلی پانی کی پریشانی کا حل کرنے کے بعد ایک ایک کر کے سارے مسائل ھم عوام اور گورنر سندہ مل کر دور کردیں گے۔

میری م کہانی


قارئین کرام! یوم آزادی کے حوالے سے ترانے،تقاریر، ڈرامے،مباحثے اور قومی ہیروزکے مزارات پر حاضری تو روایتی رہی ھے ھمیشہ، مگر اب کچھ سالوں سے باجے کا استمعال جزوِ لازمی بنتا جا رہا ھے وہ باجے جن کی گونج کبھی ہاکی اور کرکٹ کے میدانوں میں سنتے تھے اب یہی باجے قوم گلی گلی 14 اگست پر یوں بجاتی دکھائی دیتی ھے گویا پوری قوم،”قومی بینڈ بجی” بن چکی ھے رات کے 12 بجتے ہی پٹاخے، ھوائی فائرنگ کے سنگ باجے کا شور اپنا الگ ہی مقام پاتا جا رہا ھے اس قوم کو باجوں پر لگانے والے حاضر ھوں انہیں کوئی سزا نہیں دی جائے گی سر عام معافی کا اعلان ھے۔

گاجر کا حلوہ


گاجر کا حلوہ
قارئین کرام
سعدیہ حلوائن کی طرف سے پیشِ خدمت ھے “حلوائے گاجر” اور  یہ کوئی عام گاجر کا حلوہ نہیں ھے بہت ہی نایاب اور منفرد اجزائے ترکیبی پر مشتمل ایک بہت ہی خاص میٹھا ھے اس ترکیب کو منظور وسان کے سچے جھوٹےخوابوں کے لِنکز پر سر کھپائی کر کے ، دریائے نیل میں غوطہ زن ھوکے اس ترکیب کو فراعینِ مصر کے موجودہ اہراموں کے گلدان میں لگے جناتی پھولوں کی مٹی سے حاصل کیا گیا ھے۔اس ترکیب کو مٹی میں بڑی راز داری سے دفن کیا گیا تھا ۔ صدیوں پرانا  یہ نسخہ سانوری جادوگر کے ہاتھوں سے لکھی ھوئی اصلی اردو کی حلوے کی ترکیب ھے وہ اردو جو آجکل ھمارے معاشرے میں متروک زبان بنتی جارہی ھے اور اس ترکیب کو بصد خلوص میں نے دسترخوان کی زینت بنایا ھے اس میں کوئی ڈرائی فروٹس شامل نہیں کئے گئے صرف گاجروں کو دودہ،چینی اور کچھ مقدار کیوڑے کے ساتھ سانوری جادوگر کے طریقے سے بنایا گیا ھے تیار ھونے کے بعد فرق کرنا مشکل ھو گیا کہ یہ ایک مٹھائی کی دکان کا حلوہ ھے یا گھر کا تیار کردہ۔  حلوے کی تصویر کی کوالٹی بھی اہرام مصر کی طرح کی ھی ھے وجہ اہرام مصر میں  جناتی پھولوں کےگلدان کی کھدائی کے دوران  موبائل گر جانے سے موبائل کے کیمرے کا لینز  الگ ھو گیا تھا اور “سیلفی سُلفی” کا کوئی خاص شوق نہیں تو کیمرے پر توجہ نہیں، میں بغیر لینز اصلی کیمرہ استمعال کر رہی ھوں 😀 امید ھے آج  کی اہرام مصر کی یہ ڈش آپکو پسند آئے گی۔

سردی


کراچی میں سردی کیوں آگئی ھے
دانت بج رھے ہیں
عوام کَپکَپا رہی ھے
نہ گیس،نہ بجلی
نہ روٹی ، نہ پانی
گورنمنٹ کی لے ڈوبی
ھم کو تَن مَن آسانی
سردی نے کیا یوں محدود زندگی کو
جوشیلی قوم ساری
بیڈ ریسٹ پہ آرھی ھے
صبح کمبل،شام کمبل
زندگی ھوگئی بس
کمبل ہی کمبل
آئی ایم ایف کے سر
جاتا ھے یہ سہرا معاشی تباھی اور بد حالی کا ڈیرا
مہنگائی کا طوفان
بہا لے گیا عوام، اور
گورنمنٹ بچ کے
کنارے جا رہی ھے
اثاثے بچا رہی ھے،
ڈوبتی عوام کو
رکھ کے گروی
مقدمات سے سبھی
نام نکلوا رہی ھے،
غریب عوام کا ھے،
اب خدا ہی حافظ،
ڈیفالٹ کر جانے کی،
بجلی کڑکڑارہی ھے۔

Business idea and cooking recipe


Readers, this is a famous phrase “Necessity is the mother of invention” Now if invention is a mother, then discovery can be a sister.Ever since the first day of mankind, the cause of curiosity has been playing with experiments. And because of his curious nature, he was eventually expelled from heaven,But still curiosity good and bad experiences continue with human life.

In experiments we see coincidences, sometimes discoveries emerge. Although the list of accidental invention experiments is long, countless types of objects fall into it.Cooking is also an art in which we get new food recipes due to new experiences every day. these new recipes often become the favorite food of all humans and perhaps even animals. For example, potato chips are a favorite food of all of us humans as well as monkeys and cats.

What about the experimental world of YouTube? Here are some fun videos (Earn 15 Lakhs per month from home) Isn’t it fun!! From this to make your own personal airplane at home, you can use YouTube to learn all this. I also started looking for YouTube videos on how you can turn a spare sofa at home into a mini car. Then I thought that maybe after watching these videos, I will at least prepare my own personal rickshaw. Searching for the same recipes, I came across videos like “Easy food recipes Ready in Just 10 Minutes”. Only 10 minutes…I mumbled, and quickly rolled up my sofa rickshaw project and threw it away. I liked a 10-minute recipe and thought of trying it at the same time.

Along with the recipe, the chef explained the business importance of the recipe. It is a successful home-based business that women can easily do. They just make “Milk khoya” at home and supply it to the market. Milk Khoya is frequently used in the sweet recipes of Pakistan, Bangladesh, and India. Zarda Khoya, Barfi, Kalakand, etc, are some famous sweet item names.

A different type of milk khoya with grainy texture
plain milk khoya
Delicious milk khoya qalaqand
tasty barfi
khoya zardaa

The chef explained the recipe that it only requires fresh milk. Boil 1 Kg of milk and then let it cook on high flame. Adding nothing to the milk is just cooking the milk and after every little while, it has to be stirred with the help of a spoon. When all the milk is equal to half a cup, take it off the stove. When this material cools down, consider that the milk khoya is ready. I found this recipe very easy. The chef said that in this way, women can start the milk khoya business at home. So I imagined myself among the famous businesswomen and with this thought, I turned to the kitchen and then put the pan of fresh milk on the stove. just 10 minutes…. I was happy thinking this thought, but after some time the milk was boiling more now and after 25 minutes of doing this, the milk did not thicken. Even after another 15 minutes, the milk did not thicken much. I watched the recipe video once again. Finally, after 2 hours, the milk thickened and only half a cup remained. I left it to cool. The milk khoya could not thicken even after cooling. When I tasted it, I felt it was like an ice cream flavor.

came out of my mouth
“Hurray” Finally I also discovered a tasty food flavor. Now I thought that I will start this ice cream flavor food business.

Did I think right? I hope you won’t soon forget today’s sofa text express train journey.

Aesthetic Taste


Readers, the pen is a really wonderful thing. Sometimes the words written by the pen are the interpreters of knowledge, sometimes they are adapted into drama or fiction. words are sometimes humming in the form of songs. Whenever a painting brush (a brush is also a form of the pen) moves, the color makes the universe more colorful and lively. That is why sometimes reality seems to be fiction and fiction is reality. This is actually a beautiful combination of pen and thoughts. And we see this beautiful combination in our life. It can be a beautiful painting. There may be a film or drama in it. It could be a tweet or a social media post. It might be a book/poem or a melodious song. Now it is a different thing that the song should be in a bad voice But if you have ears to listen to, this bad voice will also sound very good. Ha Ha Ha ( just a little joke). Many of us are also dress designers and our
thoughts + pen sets a creation And then that creation looks good on the clothes. Hanna (Mehndi)designs are done in the same way, just go ahead and make the designs with the pointed pen of the henna (mehndi) cone. This has been the tragedy of men and women with aesthetic taste (yes, I will say tragedy, whatever you want to say), Sometimes their aesthetic taste becomes so weak that they no longer have control over their hands. Wherever there is an opportunity, they start to satisfy their aesthetic taste. For example:

writing critical sentences. Poems or contact numbers on books or magazines. Writing different sentences with chalk or coal on walls, school desks or college benches. Making heart + arrow Or making scary pictures in a vacant plot house. Sometimes distorting the image of a model on a pole or writing extra words on an advertisement poster is very common. Although all these God-given abilities are present, they are not utilized in a very useful way.

For example, in the days when there was a telephone, a decorated table and a phone diary pencil/pen was a must in the house to keep the telephone. In some houses, I even found the pen very tightly tied to a regular telephone wire in some precious relationship. Ha ha, nIn those days, I used to learn new henna designs and while talking to my friends on the phone, I used to create countless henna designs on the phone diary, and my younger brothers used to draw cartoons on these same pages while listening to the phone. One day my father was very angry seeing all this and our creative works were lying in front of my father like a book of deeds. My father took our names and let us have what he said in honor of the aesthetic taste of all of us.Then father asked us where are your copies, Was the phone diary found to spoil? Idiots…..We got away from there.

But the post still remains, readers!! because this aesthetic taste is beyond the grasp of the hand. If I still have a magazine in front of me and a pen and pencil, even colored pencils, I’ll start sketching. You can see some of my selections today from such things, I hope you will be happy and that Today’s Sofa Text Express journey of ours will be memorable.

جمالیاتی ذوق


جمالیاتی ذوق قارئین کرام قلم بھی کیا عجب اور غضب شے ھے قلم سے لکھے الفاظ کہیں عِلم کے ترجمان ہیں کہیں ڈرامے یا افسانے میں ڈھل جاتے ہیں تو کبھی گیتوں کی صورت ھماری زبان پر تکیہ کلام بھی بن جاتے ہیں جب کبھی مصوری کا برش(برش بھی قلم کی ایک صورت ھے) چلتا ھے تو رنگین کائنات کو مزید رنگین اور جاندار بنا دیتا ھے اسی وجہ سے حقیقت میں افسانے اور افسانے میں حقیقت کا سا گمان گذرتا ھے۔ اصل میں یہ سب قلم اور خیالات کا اک حسین امتزاج ھے جو فنِ تخلیق کو کسی نہ کسی صورت میں ہماری روزمرہ زندگی میں نت نئی اشکال میں ھماری نظروں کے سامنے لے آتا ھے اور اکثر ھماری نظریں اس تخلیق پر رک جاتی ہیں وہ کوئی فن پارہ بھی ھوسکتا ھے کوئی سُر میں ڈوبی میٹھی یا بھدی آواز بھی ھو سکتی ھے یا پھر فلم\ڈرامہ بھی ھو سکتا ھے۔ کوئی ٹویٹ یا سوشل میڈیا کی چھوٹی سی پوسٹ بھی ھو سکتی ھے ھم میں سے بہت سے لوگ ڈریس ڈیزائنر بھی ہوتے ہیں اور ان کے خیالات + قلم ایک تخلیق ترتیب دیتا ھے اور پھر وہ تخلیق کپڑے پر نمایاں ھو کرکیا ھی بھلی لگتی ھے اسی طرح مہندی کے ڈیزائن ہوتے ہیں مہندی کون کے نوکدار قلم سے ڈیزائن بس بناتے چلے جاؤ۔جمالیاتی ذوق رکھنے والے مرد و خواتین کا یہ المیہ رہا ھے (ہاں میں المیہ ہی کہوں گی آپ جو مرضی کہہ لیں) کہ کبھی کبھی ان کا جمالیاتی ذوق اس حد تک کمزوری بن جاتا ھے کہ پھر انہیں اپنے ہاتھوں پر کنٹرول نہیں رہتا جہاں جو چیز بھی ملے موقع ملے وہ اپنے جمالیاتی ذوق کی تسکین کرنے لگ جاتے ہیں مثال کے طور پر کتابوں یا رسائل پر تنقیدی جملے ،شعر یارابطے نمبر لکھنا دیواروں پر اسکول ڈیسک یا کالج بینچز پر چاک یا کوئلے سے ذو معنی جملے، دل +تیر بنانا، کسی بھی وجہ سے خالی پڑے پلاٹ مکان میں ڈراؤنی تصاویر بنانا اور بیکار جملہ بازی کرنا کھمبے پر لگی ماڈل کی تصویر بگاڑنا یا اشتہار کے پوسٹر میں اضافی جملے لکھ دینا بہت عام ہیں اگرچہ ہیں تو یہ سب خدادا صلاحیتیں مگر بہت مفید طریقے سے استمعال نہیں ہو پاتیں مگر یہ حقیقت ھے کہ بڑے غیر محسوس طریقے سے ہم گھر میں ھی اس چیز کے عادی ھوتے ہیں اور پتہ بھی نہیں چلتا مثال کے طور پر جن دنوں ٹیلیفون کا زمانہ تھا تو ٹیلیفون رکھنےکے لئے گھروں میں سجے میز اور فون ڈائری پینسل\قلم لازمی ساتھ ھوتا تھا کچھ گھروں تو میں نے قلم کو باقاعدہ ٹیلیفون کے تار سے بہت مضبوطی کے ساتھ کسی انمول رشتے میں بندھے بھی پایا۔ مابدولت ان ہی دنوں مہندی کے نت نئے ڈیزائن سیکھا کرتی تھی اور سہیلیوں سے فون پر بات کرتے کرتے پاس پڑی ڈائری، قلم سے ان گنت مہندی ڈیزائن تشکیل کیا کرتی چھوٹے بھائی ان ہی صفحات پر فون سنتے کارٹون بناتے رہتے وہ ڈائری ایک دن ابو جی دیکھ کر بھڑک اٹھے اور ھمارے تخلیقی فن پارے اعمال نامے کی طرح ابو کے آگے پڑے تھے ۔ ابو نے باری باری ھمارے نام لے لے کر ہم سب کے جمالیاتی ذوق کی شان میں جو کچھ کہا وہ ہم تک رہنے دیں مگر ابو کا اس سب کے بعدھم سے یہی سوال تھا کہ تم سب کی اپنی کاپیاں کہاں ہیں جو تمہیں فون ڈائری ھی ملی تھی نالائقو!! مگر پوسٹ ابھی باقی ھے پڑھنے والو کیونکہ یہ جمالیاتی ذوق ہاتھ کی گرفت سے باہر ھے میرے پاس اب بھی کوئی میگزین سامنے ھو اور ساتھ پین پینسل حتی کہ کلر پینسلز بھی ھوں تو میں مینا کاری شروع کر دیتی ھوں ایسی ھی مینا کاریوں سے میرا آج کا کچھ انتخاب آپ سب کی نظر ھے امید ھے سب محظوظ ھوں گے۔

ترکیب


ربڑی یا قُلفی

قارئین کرام!
کہتے ہیں کہ ضرورت ایجاد کی امی جی ھے پھر تو دریافت ایجادکی چھوٹی بہن ھو گی ۔حضرتِ انسان روزِ اول سے ھی  تجسس کے ھاتھوں شدید مجبور ھو کر تجربہ تجربہ کھیلتاچلا آیا ھے اور اپنی اسی متجسس طبیعت کے باعث بالآخرجنت سے بھی نکالا جا چکا ھے  مگر پھر بھی ابھی تک   تجسس اور اچھے برے  تجربات انسانی زندگی کے ساتھ جاری وساری ھیں ۔تجربات میں ھم  اتفاقی تجربات، توکبھی  دریافتوں کو ظہور پذیر ہوتا دیکھتے ہیں اتفاقیہ ایجادات کے تجربات کی اگرچہ طویل  فہرست ھے ، لا تعداد انواع واقسام کی اشیاء اس میں آجاتی ہیں ۔کھانا پکانا بھی وہ فن ھے جس میں آئے روز نت نئے تجربات  کی وجہ سے کھانوں کی  نئی ترکیبیں ظہور پذیر ہوتی  ہی رہتی ہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کےتمام انسانوں+ شاید جانوروں کی بھی پسندیدہ خوراک بن جاتی ہیں جس میں ھم ایک جیتی جاگتی مثال آلو کی چپس کی لے سکتے ہیں جو مجھ نا چیز نے اپنے تجربے کے بعد اسے یکساں طور پر انسانوں سمیت بلیوں بندراور لنگوروں کا من پسند “کھاجا” پایا ھےـ یو ٹیوب کی تجرباتی دنیا میں ھم نے جو غوطہ زن ھو کے دیکھا تو جناب یہاں تفریحی ویڈیوز (ماہانہ 15 لاکھ کمائیں وہ بھی گھر بیٹھے) ھے نا تفریح !!اس بات سے لیکر گھر میں خود اپنا ذاتی ھوائی جہاز بنانے تک کے طریقے  دستیاب ہیں ما بدولت بھی اسی کام پر لگ گئ اور گھر میں موجود  اضافی صوفے کو چار پہیوں کی گاڑی میں تبدیل کرنے کی لگی ویڈیوز ڈھونڈنے کہ ھو نہ ھو انہی ویڈیوز کو دیکھ کر میں کم از کم اپنا ذاتی رکشہ تو تیار کر ہی لوں گی۔ خیر میرا یہ پراجیکٹ تو ابھی زیر غور تو تھا ہی کہ کھانے کی نت نئی  ترکیبوں کے ایسی ایسی خوبصورت ویڈیوز موجود ھوتی ہیں “صرف 10 منٹ میں جھٹ پٹ تیار، کھانے میں مزیدار” ان ترکیبوں پر نظر پڑتے ہی گھر پر  میں نے “صوفہ رکشہ پراجیکٹ” کو دور پرے رول کر کے رکھا اور  صرف “10 منٹ میں تیار”  کی  لا تعداد ترکیبیں دیکھتے ایک ترکیب آزمانے کا سوچا یہ وہ ترکیب تھی جس کی شان میں ویڈیو بنانے والے  جھوٹوں کے بادشاہ یہاں تک کہہ گئے کہ یہ گھریلو پیمانے کا ایک کامیاب کاروبار ھے جسے خواتین بھی بآسانی کر سکتی ہیں کھویا بنائیں اور مارکیٹ کی دکانوں پر سپلائی شروع کر دیں میں نے یہ سب دیکھنے کے بعد خود کو ننھے منے کاروبار سے لے کر پاکستان کی بڑی بزنس وومین کی فہرست میں پایا مگر ابھی یہ سب تصور تھا اور اسی تصور کے ساتھ میں نے کچن کارخ کیا جیسے جیسے جھوٹے یو ٹیوبرز نے کہا ویسے ویسے  میرے ہاتھوں ترکیب چلتی رہی ،چلتی رہی۔۔۔۔بس کچھ نہ پوچھیں وہ دس منٹ نہیں پورے 2 گھنٹے لگ گئے ترکیب کیا تھی جی کہ گھر میں موجود فریش  دودہ سے جھٹ پٹ کھویا بنانے کی ترکیب جسے بس چولہے پر پکانا تھا اور کچھ نہیں ملانا تھا وہ دودہ پک کر ، کر اُبل کر، جب صرف آدھی پیالی رہ جائے گا تو کھویا تیار ھو جائے گا آنچ کم نہیں کرنی ہاتھ روکنا نہیں چمچہ گیری کرنی ھے بس مطلب چمچہ دودہ میں یوں چلانا ھے جیسے سمندر میں کشتی میں بہت سارے لوگ مل کر چپو چلاتے ہیں بس ویسے ہی یہ سب میں نے کیا اورمجھے”تندرستی ھزار نعمت ھے” والی کہانی یاد آگئی جس میں ایک سست اور کاھل آدمی کے علاج کے لئے گاؤں کا حکیم ایک خالی کمرے کو آگ کی مدد سے خوب گرم کر کے پھر ننگے پاؤں اس سست آدمی کو اس میں بند کردیتا ھے اور وہ پیروں کے جلنے پر اچھل اچھل کر پسینے میں شرابور ھو جاتا ھے پھر جب اسے باہر نکالا جاتا ھے تو اس کی سستی کاھلی دور ھو جاتی ھے اور اسے بھوک بھی خوب لگتی ھے۔ خیر جب میں نے دودہ میں چپو چلاتے پسینے میں شرابور ھونے کے بعد دیکھا کہ دودہ کافی گاڑھا ھو چکا ھے تو اسے اتار کر  روم ٹمپریچر پر ٹھنڈا کرنے چھوڑ دیا اگرچہ مجھے اب بھی doubt تھا کہ کھویا تو ایسا نہیں ھوتا مگر ترکیبب کو تو اب  follow کرنا ہی تھا نہ جب دودہ ٹھنڈا ہوا تو ایک پیالی میں نکالا تو فوراً منہ سے تان نکلی” اے قلفی قلفی قلفي ی ی کھوئے والی قلفی” اور ساتھ ھی کالی بُجھنگ  خالی پتیلی دیکھی کھویا بنانے کے چکر میں پتیلی کا چمکتا دمکتا روپ سَڑ  کے سوا (راکھ) ھو چکا تھا وہ توشکر ھے کہ دیگچی سلامت رہی کہیں احتجاجاً پھٹ نہ گئی ٹھاہ کر کے ورنہ تیار کردہ یاایجاد کردہ کھویا ھمارے منہ پر چپکنے کے بعد افریقہ کے کسی پارلر کی یاد تازہ کر دیتا۔ خیر مجھے تو اسے دیکھ کر کہیں سے بھی کھوئے کا گمان نہ ھوا جب کھا کر دیکھا تو کبھی ربڑی کا ذائقہ آرہا تھا کبھی قلفی کا سا۔بہرحال یہ اتفاقیہ یو ٹیوبی ترکیب جو بنی سو بنی آئندہ کے لئے دس منٹ کی ترکیبوں سے ہمیشہ کی توبہ کر لی اور سوچا اتنی دیر میں تو میرا ذاتی رکشہ پراجیکٹ تو آدھا مکمل ھو جانا تھا یا اپنی ترکیبوں سے ان دو گھنٹوں میں میں 2 ڈشز آرام سے بنا سکتی تھی۔اب تو جو ھونا تھا ھو گیا ۔ اس ترکیب کے آزمانے کے بعد  مجھے  بعد میں خیال آیا کیوں نہ میں ربڑی کا کاروبار شروع کر لوں آخر ربڑی بھی تو ایسے ہی تیار ہوتی ھے نا۔کیا خیال ھے آپکا قارئین کرام۔